پاناما پیپرز کے بعد “پنڈورا پیپرز” عالمی سکینڈل منظر عام پر لانے کو تیار

اسلام آباد: پناما پیپرز کے بعد “پنڈورا پیپرز” تہلکہ مچانے کو تیار، ٹیکس چوری اور بے نامی دولت چھپانے کا ایک اور عالمی اسکینڈل منظر عام پر لانے کی تیاریاں، پاکستان سمیت ایک سو سترہ ممالک کی اہم شخصیات سے متعلق مالی تفصیلات شامل ہیں، آئی سی آئی جے آج رات ساڑھے نو بجے تفصیلات جاری کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق عالمی دنیا میں ہلچل مچانے والے پانامہ پیپرز کی طرز پر ایک اور عالمی سکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ آئی سی آئی جے آج رات گیارہ اعشاریہ 9ملین دستاویزات شائع کرے گی۔ ایک عالمی تحقیقات جو 2016ء کے پاناما پیپرزکوبھی پیچھے چھوڑدے گی، اس تحقیقات میں 117 ممالک کے 600 صحافیوں، 150میڈیا تنظیمیوں نے حصہ لیا۔
آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز کے نام سے پروجیکٹ میں 117 ممالک کی اہم شخصیات کی مالی تفصیلات شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات میں پاکستان کے بھی دو صحافی شامل ہیں، پنڈورا پیپرز میں کئی پاکستانی شخصیات کی مالی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔

ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ اس وقت کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا۔

پاناما پیپرز کیا ہیں؟

بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔

فائل سے معلوم چلتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔ ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔

ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے حاصل کیے، جس نے انھیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیا۔

یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔

بی بی سی کو دستاویزات کو لیک کرنے کے ذرائع کی شناخت کا علم نہیں ہے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔

ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں